چٹانوں میں فائر | 1: تشویش کی دُھند میں لپٹا مہمان

تشویش کی دُھند میں لِپٹا مہمان

Chapter 1 Feature Image

 کرنل ضرغام بےچینی سے کمرے میں ٹہل رہا تھا۔

یہ ایک ادھیٹر عمر کا قوی الجثہ اور پر رعب چہرے والا آدمی تھا! مونچھیں گھنی اور نیچے کی طرف ڈھلکی ہوئی تھیں!...بار بار اپنے شانوں کو اس طرح جنبش دیتا تھا جیسے اسے خدشہ ہو کہ اس کا کوٹ شانوں سے ڈھلک کر نیچے آجائے گا۔ یہ اس کی بہت پرانی عادت تھی۔ وہ کم از کم ہر دو منٹ کے بعد اپنے شانوں کو اس طرح ضرور جنبش دیتا تھا....اس نے دیوار سے لگے ہوئے کلاک پر تشویش آمیز نظریں ڈالیں اور پھر کھڑکی کے پاس کھڑا ہو گیا۔

تیسرے ہفتہ کا چاند دور کی پہاڑیوں کے پیچھے سے ابھر رہا تھا....موسم بھی خوشگوار تھا اور منظر بھی انتہائی دلکش!...مگر کرنل ضرغام کا اضطراب!--- وہ ان دونوں سے بھی لطف اندوز نہیں ہو سکتا تھا۔

اچانک وہ کسی آہٹ پر چونک کر مڑا....دروازے میں اس کی جوان العمر لڑکی صوفیہ کھڑی تھی۔

"اوہ ڈیڈی…... دس بج گئے لیکن!"

"ہاں....آں!" ضرغام کچھ سوچتا ہوا بولا۔ "شاید گاڑی لیٹ ہے۔“

وہ کھڑکی کے باہر دیکھنے لگا! صوفیہ آگے بڑھی اور اس نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھ دیا۔

لیکن کرنل ضرغام بدستور باہر ہی دیکھتا رہا۔

"آپ اتنے پریشان کیوں ہیں۔“ صوفیہ آہستہ سے بولی۔

"اف فوہ!" کرنل ضرغام مڑ کر بولا۔ "میں کہتا ہوں کہ آخر تمہاری نظروں میں ان واقعات کی کوئی اہمیت کیوں نہیں۔“

"میں نے یہ کبھی نہیں کہا!" صوفیہ بولی۔ "میرا مطلب تو صرف یہ ہے کہ بہت زیادہ تشویش کر کے ذہن کو تھکانے سے کیا فائدہ۔“

"اب میں اسے کیا کروں کہ ہر لحظہ میری الجھنوں میں اضافہ ہی ہوتا جاتا ہے۔“

"کیا کوئی نئی بات۔“ صوفیہ کے لہجے میں تحیر تھا!

"کیا تم نے کیپٹن فیاض کا تار نہیں پڑھا۔“

"پڑھا ہے! اور میں اس وقت اس کے متعلق گفتگو کرنے آئی ہوں۔"

"ہوں! تو تم بھی اس کی وجہ سے الجھن میں مبتلا ہو گئی ہو۔"

"جی ہاں!.... آخر اس کا کیا مطلب ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ایک ایسا آدمی بھیج رہا ہوں جس سے آپ لوگ تنگ نہ آگئے تو کافی فائدہ اٹھا سکیں گے....میں کہتی ہوں ایسا آدمی ہی کیوں جس سے ہم تنگ آجائیں۔۔۔! اور پھر وہ کوئی سرکاری آدمی بھی نہیں ہے۔“

"بس یہی چیز۔۔۔ مجھے بھی الجھن میں ڈالے ہوئے ہے۔" کرنل نے کلاک کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ”آخر وہ کس قسم کا آدمی ہے! ہم تنگ کیوں آجائیں گے۔“

"انہوں نے اپنے ہی محکمہ کا کوئی آدمی کیوں نہیں بھیجا۔" صوفیہ نے کہا۔

"بھیجنا چاہتا تو بھیج ہی سکتا تھا لیکن فیاض بڑا بااصول آدمی ہے۔ ایک پرائیویٹ معاملے کے لئے اس نے سرکاری آدمی بھیجنا مناسب نہ سمجھا۔“

کرنل ضرغام کے دونوں بھتیجے انور اور عارف ریلوے اسٹیشن پر ٹرین کی آمد کے منتظر تھے! محکمہ سراغ رسانی کے سپرنٹنڈنٹ کیپٹن فیاض نے ان کے چچا کی درخواست پر ایک آدمی بھیجا تھا جسے وہ لینے کے لئے اسٹیشن آئے تھے گاڑی ایک گھنٹہ لیٹ تھی۔

ان دونوں نے بھی کیپٹن فیاض کا تار دیکھا تھا اور آنے والے کے متعلق سوچ رہے تھے!

یہ دونوں جوان، خوش شکل، سمارٹ اور تعلیم یافتہ تھے۔ انور عارف سے صرف دو سال بڑا تھا۔ اس لئے ان میں دوستوں کی سی بے تکلفی تھی اور عارف، انور کو اس کے نام ہی سے مخاطب کرتا تھا۔

"کیپٹن فیاض کا تار کتنا عجیب تھا۔" عارف نے کہا۔

"اس کم بخت ترین کو بھی آج ہی لیٹ ہو تا تھا!" انور بڑبڑایا۔

"آخر وہ کس قسم کا آدمی ہو گا؟" عارف نے کہا۔

"اونہہ! چھوڑو ہوگا کوئی چڑچڑا، بددماغ۔“ انور بولا ”کرنل صاحب خواہ مخواہ خود بھی بور ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی بور کرتے ہیں۔“

”یہ تمہاری زیادتی ہے۔" عارف نے کہا۔ ”ان حالات میں تم بھی وہی کرتے جو وہ کر رہے ہیں۔“

"ارے چھوڑو۔۔! کہاں کے حالات اور کیسے حالات....سب ان کا وہم ہے میں اکثر سوچتا ہوں ان جیسے وہمی آدمی کو ایک پوری بٹالین کی کمانڈ کیسے سونپ دی گئی تھی کوئی تک بھی

ہے۔ آخر گھر میں بلیاں روئیں گی تو خاندان پر کوئی نہ کوئی آفت ضرور آئے گی.... الو کی آواز سن کردم نکل جائے گا! اگر کھانا کھاتے وقت کسی نے پلیٹ میں چھری اور کانٹے کو کراس کر کے رکھ دیا تو بد شگونی!... صبح ہی صبح اگر کوئی کانا آدمی دکھائی دے گیا تو مصیبت!"

”اس معاملہ میں تو مجھے ان سے ہمدردی ہے۔“ عارف نے کہا۔

"مجھے تاؤ آتا ہے؟“ انور بھنّا کر بولا۔

"پرانے آدمیوں کو معاف کرنا ہی پڑتا ہے۔“

"یہ پرانے آدمی ہیں۔" انور نے جھنجھلا کر کہا۔ ”مجھے تو ان کی کسی بات میں پرانا پن نہیں نظر نہیں آتا۔ سوائے ضعیف الاعتقادی کے۔“

"یہی سہی! بہر حال وہ پچھلے دور کی وراثت ہے۔"

تیز قسم کی گھنٹی کی آواز سے وہ چونک پڑے. یہ ٹرین کی آمد کا اشارہ تھا۔ یہ ایک چھوٹا سا پہاڑی اسٹیشن تھا۔ یہاں مسافروں کو ہو شیار کرنے کے لئے گھنٹی بجائی جاتی تھی پورے پلیٹ فارم پر آٹھ یا دس آدمی نظر آرہے تھے۔ ان میں نیلی وردی والے خلاصی بھی تھے جو اتنی شان سے اکڑ اکڑ کر چلتے تھے جیسے وہ اسٹیشن ماسٹر سے بھی کوئی بڑی چیز ہوں۔۔۔۔۔ کھانا فروخت کرنے والے نے اپنا جالی دار لکڑی کا صندوق جس کے اندر ایک لالٹین جل رہی تھی۔ مونڈھے سے اٹھا کر کاندھے پر رکھ لیا! اور پان بیڑی سگریٹ بیچنے والے لڑکے نے جو ابھی منہ سے طبلہ بجا بجا کر ایک فحش سا گیت گا رہا تھا اپنی ٹرے اٹھا کر گردن میں لٹکالی۔

ٹرین آہستہ آہستہ رینگتی ہوئی آکر پلیٹ فارم سے لگ گئی۔

انور اور عارف گیٹ پر کھڑے رہے۔

پوری ٹرین سے صرف تین آدمی اترے.... دو بوڑھے دیہاتی.... اور ایک جوان آدمی جس کے جسم پر خاکی گابرڈین کا سوٹ تھا.... بائیں شانے سے غلاف میں بند کی ہوئی بندوق لٹک رہی تھی اور داہنے ہاتھ میں ایک بڑا ساسوٹ کیس تھا۔

غالباً یہ وہی آدمی تھا جس کے لئے انور اور عارف یہاں آئے تھے۔

وہ دونوں اس کی طرف بڑھے۔

"کیا آپ کو کیپٹن فیاض نے بھیجا ہے؟" انور نے اس سے پوچھا۔

"اگر میں خود ہی نہ آنا چاہتا تو اس کے فرشتے بھی نہیں بھیج سکتے تھے۔" مسافر نے مسکرا کر کہا۔

"جی ہاں! ٹھیک ہے۔" انور جلدی سے بولا۔

"کیا ٹھیک ہے!" مسافر پلکیں جھپکا نے لگا۔

انور بوکھلا گیا۔ ”یہی جو آپ کہہ رہے ہیں۔“

”اوہ !" مسافر نے اس طرح کہا جیسے وہ پہلے کچھ اور سمجھا ہو۔

عارف اور انور نے معنی خیز نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھا۔

"ہم آپ کو لینے کے لئے آئے ہیں۔" عارف نے کہا۔

”تو لے چلئے نا۔“ مسافر نے سوٹ کیس پلیٹ فارم پر رکھ کر اس پر بیٹھتے ہوئے کہا۔

انور نے قلی کو آواز دی۔

"کیا!" مسافر نے حیرت سے کہا۔ "یہ ایک قلی مجھے سوٹ کیس سمیت اٹھا سکے گا!"

پہلے دونوں بو کھلائے پھر ہنسنے لگے۔

”جی نہیں!“ انور نے شرارت آمیز انداز میں کہا۔ ”آپ ذرا کھڑے ہو جائیے۔“

مسافر کھڑا ہو گیا۔۔ انور نے قلی کو سوٹ کیس اٹھانے کا اشارہ کرتے ہوئے مسافر کا ہاتھ پکڑ لیا۔ "یوں چلئے"

"لا حول ولا قوة" مسافر گردن جھٹک کر بولا۔ “میں کچھ اور سمجھا تھا۔“

انور نے عارف کو مخاطب کر کے کہا۔ ”غالباً اب تار کا مضمون تمہاری سمجھ میں آگیا ہو گا۔“

عارف ہنسنے لگا! لیکن مسافر اتنی بےتعلقی اور سنجیدگی سے چلتا رہا جیسے اسے اس بات سے کوئی سروکار ہی نہ ہو۔ وہ باہر آکر کار میں بیٹھ گئے۔ پچھلی سیٹ پر انور مسافر کے ساتھ تھا اور عارف کار ڈرائیو کر رہا تھا۔

انور نے عارف کو مخاطب کر کے کہا۔ ”کیا کرنل صاحب اور کیپٹن فیاض میں کوئی مذاق کارشتہ بھی ہے۔"

عارف نے پھر قہقہہ لگایا.... وہ دونوں ہی سوچ رہے تھے کہ اس احمق مسافر کے ساتھ وقت اچھا گزرے گا۔

"جناب کا اسم شریف۔" اچانک انور مسافر سے مخاطب ہوا۔

"کلیر شریف۔“ مسافر نے بڑی سنجیدگی سے جواب دیا۔

دونوں ہنس پڑے۔

"ہائیں! اس میں بنسنے کی کیا بات!" مسافر بولا۔

”میں نے آپ کا نام پوچھا تھا۔“ انور نے کہا۔

"علی عمران۔ ایم ایس سی، پی ایچ ڈی۔“

"ایم ۔ ایس ۔ سی۔ پی۔ ایچ۔ ڈی بھی۔“ عارف ہنس پڑا۔

"آپ ہنسے کیوں۔" عمران نے پوچھا۔

"اوہ-- میں دوسری بات پر ہنسا تھا۔“ عارف جلدی سے بولا۔

”اچھا تو اب مجھے تیسری بات پر ہنسنے کی اجازت دیجئے۔“ عمران نے کہا اور احمقوں کی طرح ہنسنے لگا۔

وہ دونوں اور زور سے ہنسے! عمران نے ان سے بھی تیز قہقہہ لگایا.... اور تھوڑی ہی دیر بعد انور اور عارف نے محسوس کیا جیسے وہ خود بھی احمق ہو گئے ہوں۔

کار پہاڑی راستوں میں چکراتی آگے بڑھ رہی تھی۔

تھوڑی دیر کے لئے خاموشی ہو گئی....... عمران نے ان دونوں کے نام نہیں پوچھے تھے۔

انور سوچ رہا تھا کہ خاصی تفریح رہے گی! کرنل صاحب کی جھلاہٹ قابل دید ہو گی! یہ احمق آدمی ان کا ناطقہ بند کر دے گا۔ اور وہ پاگلوں کی طرح سر پیٹتے پھریں گے۔

انور ٹھیک ہی سوچ رہا تھا! کرنل تھا بھی جھلے مزاج کا آدمی! اگر اسے کوئی بات دوبارہ دہرانی پڑتی تھی تو اس کا پارہ چڑھ جاتا تھا!.... چہ جائیکہ عمران جیسے آدمی کا ساتھ!

آدھے گھنٹے میں کار نے کرنل کی کوٹھی تک کی مسافت طے کرلی!.... کر نل اب بھی بےچینی سے اسی کمرے میں ٹہل رہا تھا اور صوفیہ بھی وہیں موجود تھی۔

کرنل نے عمران کو اوپر سے نیچے تک تنقیدی نظروں سے دیکھا!۔۔ پھر مسکرا کر بولا۔

"کیپٹن فیاض تو اچھے ہیں۔“

"اجی توبہ کیجئے! نہایت نا معقول آدمی ہے؟" عمران نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ اس نے کاندھے سے بندوق اتار کر صوفے کے ہتھے سے لٹکا دی۔

”کیوں نا معقول کیوں؟“ کرنل نے حیرت سے کہا۔

”بس یونہی۔" عمران سنجیدگی سے بولا۔ "میراخیال ہے کہ نامعقولیت کی کوئی وجہ نہیں ہوتی۔“

تبصرے