چٹانوں میں فائر | 2: ہنسی، جھلّاہٹ اور بے یقینی کی رات
ہنسی، جھلّاہٹ اور بے یقینی کی رات
"خوب!" کرنل اسے گھورنے لگا۔ "آپ کی تعریف؟“
"اجی ہی۔۔ہی۔۔ہی… اب اپنے منہ سے اپنی تعریف کیا کروں۔“ عمران شرما کر بولا۔۔!
انور کسی طرح ضبط نہ کر سکا! اسے ہنسی آگئی! اور اس کے پھوٹتے ہی عارف بھی ہنسنے لگا۔
"یہ کیا بد تمیزی۔" کرنل ان کی طرف مڑا۔
دونوں یک بیک خاموش ہو کر بغلیں جھانکنے لگے.... صوفیہ عجیب نظروں سے عمران کو دیکھ رہی تھی۔
”میں نے آپ کا نام پوچھا تھا۔" کرنل نے کھنکار کر کہا۔
"کب پوچھا تھا۔" عمران چونک کر بولا۔
"ابھی“ کرنل کے منہ سے بے ساختہ نکلا اور وہ دونوں بھائی اپنے منہ میں رومال ٹھونستے ہوئے باہر نکل گئے۔
"ان لونڈوں کی شامت آگئی ہے۔" کرنل نے غصیلی آواز میں کہا....اور وہ بھی تیزی سے کمرے سے نکل گیا۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ ان دونوں کو دوڑ کر مارے گا۔
عمران احمقوں کی طرح بیٹھا رہا۔ بالکل ایسے ہی بے تعلقانہ انداز میں جیسے اس نے کچھ دیکھا سنا ہی نہ ہو… صوفیہ کمرے ہی میں رہ گئی تھی اور اسکی آنکھوں میں شرارت آمیز چمک لہرانے لگی تھی۔
”آپ نے اپنا نام نہیں بتایا۔“ صوفیہ بولی۔
اس پر عمران نے اپنا نام ڈگریوں سمیت دہرادیا۔ صوفیہ کے انداز سے ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے اسے اس پر یقین نہ آیا ہو۔
"کیا آپ کو اپنے یہاں آنے کا مقصد معلوم ہے۔“ صوفیہ نے پوچھا۔
"مقصد!" عمران چونک کر بولا۔ ”جی ہاں مقصد مجھے معلوم ہے۔ اسی لئے میں اپنی ائیرگن ساتھ لایا ہوں۔“
"ائیر گن!“ صوفیہ نے حیرت سے دہرایا۔
”جی ہاں۔" عمران نے سنجیدگی سے کہا۔ ”میں ہاتھ سے مکھیاں نہیں مارتا۔“
کر نل جو پشت کے دروازے میں کھڑا ان کی گفتگو سن رہا تھا جھلا کر آگے بڑھا۔
"میں نہیں سمجھ سکتا کہ فیاض نے بیہودگی کیوں کی؟“ اس نے سخت لہجے میں کہا اور عمران کو کھڑا گھورتا رہا۔
”دیکھئے ہے نا۔۔ نا معقول آدمی! میں نے تو پہلے ہی کہا تھا!" عمران چہک کر بولا۔
"آپ کل پہلی گاڑی سے واپس جائیں گے۔" کرنل نے کہا۔
"نہیں!" عمران نے سنجیدگی سے کہا۔ ”میں ایک ہفتے کا پروگرام بنا کر آیا ہوں۔“
”جی نہیں۔ شکریہ!" کرنل بیزاری سے بولا۔ ”میں آدھا معاوضہ دے کر آپ کو رخصت کرنے پر تیار ہوں۔ آدھا معاوضہ کیا ہوگا؟"
”یہ تو مکھیوں کی تعداد پر منحصر ہے۔“ عمران نے سر ہلا کر کہا۔ ”ویسے ایک گھنٹے میں ڈیڑھ درجن مکھیاں مارتا ہوں۔۔اور....."
"بس۔۔ بس!" کرنل ہاتھ اٹھا کر بولا۔ ”میرے پاس فضولیات کے لئے وقت نہیں!“
"ڈیڈی--- پلیز!" صوفیہ نے جلدی سے کہا۔ ”کیا آپ کو تار کا مضمون یاد نہیں۔“
"ہوں!" کرنل کچھ سوچنے لگا! اس کی نظریں عمران کے چہرے پر تھیں جو احمقوں کی طرح بیٹھا پلکیں جھپکا رہا تھا۔
"ہوں۔ تم ٹھیک کہتی ہو۔" کرنل بولا۔ اور اب اس کی نظریں عمران کے چہرے سے ہٹ کر اس کی بندوق پر جم گئیں۔
اس نے آگے بڑھ کر بندوق اٹھالی اور پھر اسے غلاف سے نکالتے ہی بری طرح بھر گیا!
"کیا بیہودگی ہے۔" وہ حلق کے بل چیخا۔ ”یہ تو سچ مچ ائیرگن ہے۔"
عمران کے اطمینان میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں آیا۔
اس نے سر ہلا کر کہا۔ ”میں کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔“
کرنل کا پارہ اتنا چڑھا کہ اس کی لڑکی اسے دھکیلتی ہوئی کمرے کے باہر نکال لے گئی! کرنل صوفیہ کے علاوہ اور کسی کو خاطر میں نہ لاتا تھا اگر اس کی بجائے کسی دوسرے نے یہ حرکت کی ہوتی تو وہ اس کا گلا گھونٹ دیتا۔۔ ان کے جاتے ہی عمران اس طرح مسکرانے لگا جیسے وہ واقعہ بڑا خوشگوار
رہا ہو۔
تھوڑی دیر بعد صوفیہ واپس آئی اور اس نے اس سے دوسرے کمرے میں چلنے کو کہا۔
عمران خاموشی سے اٹھ کر اس کے ساتھ ہو لیا۔ صوفیہ نے بھی اس کے علاوہ اور کوئی بات نہیں کی۔ شاید وہ کمرہ پہلے ہی سے عمران کے لئے تیار رکھا گیا تھا۔
کلاک نے ایک بجایا اور عمران بستر سے اٹھ گیا۔ دروازہ کھول کر باہر نکلا۔ باہر ہر طرف اندھیراتھا.… لیکن کوٹھی کے کسی کمرے کی بھی روشنی نہیں بجھائی گئی تھی۔
بر آمدے میں رک کر اس نے آہٹ لی! پھر تیر کی طرح اس کمرے کی طرف بڑھا جہاں کرنل کے خاندان والے اکٹھا تھے! صوفیہ کے علاوہ ہر ایک کے آگے ایک ایک رائفل رکھی ہوئی
تھی۔ انور اور عارف شدت سے بور نظر آرہے تھے! صوفیہ کی آنکھیں نیند کی وجہ سے سرخ تھیں اور کرنل اس طرح صوفے پر اکڑا بیٹھا تھا جیسے وہ کوئی بہت ہو۔ اس کی پلکیں تک نہیں جھپک رہی تھیں۔
عمران کو دیکھ اس کے جسم میں حرکت پیدا ہوئی۔
"کیا بات ہے! کیوں آئے ہو۔“ اس نے گرج کر پوچھا۔
"ایک بات سمجھ میں نہیں آرہی!" عمران نے کہا
"کیا!" کرنل کے لہجے کی سختی دور نہیں ہوئی۔
”اگر آپ چند نامعلوم آدمیوں سے خائف ہیں تو پولیس کو اس کی اطلاع کیوں نہیں دیتے۔“
"میں جانتا ہوں کہ پولیس کچھ نہیں کر سکتی۔“
"کیا وہ لوگ سچ مچ آپ کے لئے نا معلوم ہیں۔“
”ہاں۔“
"بات سمجھ میں نہیں آئی۔“
”کیوں۔“
"سیدھی سی بات ہے۔ اگر آپ انہیں جانتے ہیں تو ان سے خائف ہونے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے۔“
کرنل جواب دینے کی بجائے عمران کو گھور تارہا۔
”بیٹھ جاؤ!“ اس نے تھوڑی دیر بعد کہا۔ عمران بیٹھ گیا۔
"میں انہیں جانتا ہوں۔" کرنل بولا۔
”تب پھر! پولیس.... ظاہر سی بات ہے۔“
"کیا تم مجھے احمق سمجھتے ہو۔“ کر نل بگڑ کر بولا۔
”جی ہاں!" عمران نے سنجیدگی سے سر ہلا دیا۔
"کیا؟“ کر تل اچھل کر کھڑا ہو گیا۔
"بیٹھ جائیے!" عمران نے لا پروائی سے ہاتھ اٹھا کر کہا! "میں نے یہ بات اس لئے کہی تھی کہ آپ لوگ کسی وقت بھی ان کی گولیوں کا نشانہ بن سکتے ہیں۔“
"کیوں؟“
"وہ کسی وقت بھی اس عمارت میں داخل ہو سکتے ہیں۔“
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں