چٹانوں میں فائر | 4: بندر، سانپ، اور مرغ: لی یوکا کی گتھیاں
بندر، سانپ، اور مرغ: لی یوکا کی گتھیاں
کرنل کے چہرے سے ہچکچاہٹ ظاہر ہو رہی تھی۔ وہ کچھ نہ بولا۔
"اچھا ٹھہریے!" عمران نے کچھ دیر بعد کہا۔ ”لی یوکا کے آدمی صرف ایک ہی صورت میں اس قسم کی حرکتیں کرتے ہیں۔ وہ ایک ایسا گروہ ہے جو منشیات کی ناجائز تجارت کرتا ہے!…. لی یوکا کون ہے یہ کسی کو معلوم نہیں لیکن تجارت کا سارا نفع اس کو پہنچتا ہے۔ کبھی اس کے بعض ایجنٹ بے ایمانی پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ وہ لی یوکا کے مطالبات نہیں ادا کرتے۔ اس صورت میں انہیں اس قسم کی وارننگز ملتی ہیں.... پہلی دھمکی بندر دوسری دھمکی سانپ.... اور تیسری دھمکی مرغ.... اگر آخری دھمکی کے بعد بھی وہ مطالبات ادا نہیں کرتے تو ان کا خاتمہ کر دیا جاتا ہے۔“
"تو کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ میں لی یو کا کا ایجنٹ ہوں۔“ کرنل کھنکار کر بولا۔
"ایسی صورت میں اور کیا سمجھ سکتا ہوں۔“
"نہیں یہ غلط ہے۔“
"پھر؟"
"میرا خیال ہے کہ میرے پاس لی یو کا.... کا سراغ ہے۔" کرنل بڑبڑایا۔
"سراغ! وہ کس طرح۔“
"کچھ ایسے کاغذات ہیں! جو کسی طرح لی یوکا کے لئے مخدوش ثابت ہو سکتے ہیں۔“
"مخدوش ہونا اور چیز ہے۔۔ لیکن سراغ!" عمران نفی میں سر ہلا کر رہ گیا۔
"یہ میرا اپنا خیال ہے!....“
"آخر آپ نے کس بنا پر یہ رائے قائم کی!" عمران نے پوچھا۔
"یہ بتانا مشکل ہے! ویسے میں ان کاغذات میں سے کچھ کو بالکل ہی نہیں سمجھ سکا!"
"لیکن وہ کاغذات آپ کو ملے کہاں سے۔“
"بہت ہی حیرت انگیز طریقے سے۔" کرنل سگار سلگاتا ہوا بولا۔ ”پچھلی جنگ عظیم کے دوران میں ہانگ کانگ میں تھا.... وہیں یہ کاغذات میرے ہاتھ لگے.... اور یہ حقیقت ہے کہ جس سے مجھے کاغذات ملے وہ مجھے غلط سمجھا تھا.... ہوا یہ کہ ایک رات میں ہانگ کانگ کے ایک ہوٹل میں کھانا کھا رہا تھا!… کہ ایک دبلا پتلا چینی آکر میرے سامنے بیٹھ گیا!... میں نے محسوس کیا کہ وہ بہت زیادہ خوفزدہ ہے۔ اس کا پورا جسم کانپ رہا تھا! اس نے جیب سے ایک بڑا سا لفافہ تکال کر میز کے
نیچے سے میرے گھٹنوں پر رکھ دیا اور آہستہ سے بولا، میں خطرے میں ہوں۔ اسے بی فور ٹین پہنچا دینا۔ پھر قبل اس کے کہ میں کچھ کہتا وہ تیزی سے باہر نکل گیا.... بات حیرت انگیز تھی میں نے چپ چاپ لفافہ جیب میں ڈال لیا.... میں نے سوچا ممکن ہے وہ چینی ملٹری سیکرٹ سروس کا آدمی رہا ہو اور کچھ اہم کاغذات میری وساطت سے کسی ایسے سیکشن میں پہنچانا چاہتا ہو جس کا نام بی فورٹین ہو!..... میں اس وقت اپنی پوری وردی میں تھا ہوٹل سے اپنی قیام گاہ پر واپس آنے کے بعد میں نے لفافہ جیب سے نکالا وہ سیل کیا ہوا تھا! میں نے اسے اسی حالت میں رکھ دیا۔ دوسرے دن میں نے "بی فورٹین“ کے متعلق پوچھ کچھ شروع کی لیکن ملٹری کی سیکرٹ سروس میں اس نام کا کوئی ادارہ نہیں تھا!.... پورے ہانگ کانگ میں بی فورٹین کا کوئی سراغ نہ مل سکا! آخر میں نے تنگ آکر اس لفافہ کو کھول ڈالا۔“
"تو کیا اس میں لی یوکا کے متعلق پوری رپورٹ تھی۔" عمران نے پوچھا۔
"نہیں.... وہ تو کچھ تجارتی قسم کے کاغذات ہیں! لیکن تجارت کی نوعیت صاف ظاہر ہو جاتی ہے۔ لی یوکا کا نام ان میں کئی جگہ دہرایا گیا ہے۔ کئی کا غذات چینی اور جاپانی زبانوں میں بھی ہیں۔ جنہیں میں سمجھ نہ سکا۔“
"پھر آپ کو لی یوکا کی ہسٹری کس طرح معلوم ہوئی۔"
"اوہ! وہ تو پھر میں نے ہانگ کانگ میں لی یوکا کے متعلق چھان بین کی تھی مجھے سب کچھ معلوم ہو گیا تھا لیکن یہ نہ معلوم ہو سکا کہ لی یوکا کون ہے اور کہاں ہے۔ اس کے ایجنٹ آئے دن گرفتار ہوتے رہے ہیں۔ لیکن ان میں سے آج تک کوئی لی یوکا کا پتہ نہ بتا سکا۔ ویسے نام دو سو سال سے زندہ ہے۔"
عمران تھوڑی دیر تک کچھ سوچتا رہا پھر بولا۔ ”یہ لوگ کب سے آپ کے پیچھے لگے ہیں۔“
" آج کی بات نہیں!“ کرنل بجھا ہوا سگار سلگا کر بولا۔ "کاغذات ملنے کے چھ ماہ بعد ہی سے وہ میرے پیچھے لگ گئے تھے لیکن میں نے انہیں واپس نہیں کئے! کئی بار وہ چوری چھپے میری قیام گاہ میں بھی داخل ہوئے لیکن انہیں کاغذات کی ہوا بھی نہ لگ سکی۔ اب انہوں نے آخری حربہ استعمال کیا ہے۔ یعنی موت کے نشان بھیجنے شروع کئے ہیں۔ جس کا یہ مطلب ہے کہ اب وہ مجھے زندہ نہ چھوڑیں گے۔“
"اچھاوہ چینی بھی بھی دکھائی دیا تھا جس سے کاغذات آپ کو ملے تھے۔"
"کبھی نہیں۔۔وہ کبھی نہیں دکھائی پڑا۔“
کچھ دیر تک خاموشی رہی پھر عمران بڑ بڑانے لگا۔
"آپ اسی وقت تک زندہ ہیں جب تک کاغذات آپ کے قبضے میں ہیں۔“
"بالکل ٹھیک ہے!“ کر نل چونک کر بولا۔ ”تم واقعی بہت ذہین ہو!.... یہی وجہ ہے کہ میں ان کاغذات کو واپس نہیں کرنا چاہتا ورنہ مجھے ان سے ذرہ برابر بھی دلچسپی نہیں! بس یہ سمجھ لو کہ میں نے ایک سانپ کا سر پکڑ رکھا ہے۔ اگر چھوڑتا ہوں تو وہ پلٹ کر یقیناً ڈس لے گا۔“
"کیا میں ان کا غذات کو دیکھ سکتا ہوں۔“
"ہر گز نہیں۔ تم مجھ سے سانپ کی گرفت ڈھیلی کرنے کو کہہ رہے ہو۔“
عمران ہنسنے لگا!۔۔ پھر اس نے کہا۔ ”آپ نے کیپٹن فیاض کو کیوں درمیان میں ڈالا۔“
”اس کے فرشتوں کو بھی اصل واقعات کی اطلاع نہیں۔ وہ تو صرف یہ جانتا ہے کہ مجھے کچھ آدمیوں کی طرف سے خطرہ ہے لیکن میں کسی وجہ سے براہ راست پولیس کو اس معاملے میں دخل دینے کی دعوت نہیں دے سکتا!“
"تو آپ مجھے بھی یہ ساری باتیں نہ بتاتے۔“ عمران نے کہا۔
”بالکل یہی بات ہے!۔۔ لیکن تمہارے اندر شیطان کی روح معلوم ہوتی ہے۔“
"عمران کی!" عمران سنجیدگی سے سر ہلا کر بولا۔ "بہرحال آپ نے مجھے بحثیت باڈی گارڈ طلب فرمایا ہے!“
”میں کسی کو بھی نہ طلب کرتا! یہ سب کچھ صوفیہ نے کیا ہے! اسے حالات کا علم ہے۔“
"اور آپ کے بھتیجے!"
"انہیں کچھ بھی نہیں معلوم!“
"آپ نے انہیں کچھ بتایا تو ہو گا ہی۔“
"صرف اتنا کہ بعض دشمن میری تاک میں ہیں۔ اور بندر ان کا نشان ہے۔“
"لیکن اس طرح بھری ہوئی رائفلوں کے ساتھ شب بیداری کا کیا مطلب ہے! کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ آپ کے سامنے آکر حملہ کریں گے۔“
"میں یہ بھی بچوں کو بہلانے کے لئے کرتا ہوں۔“
"خیر مارئیے گولی!" عمران نے بے پروائی سے شانوں کو جنبش دیتے ہوئے کہا۔ ”میں صبح کی چائے کے ساتھ بتاشے اور لیمن ڈراپس استعمال کرتا ہوں۔“
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں