چٹانوں میں فائر | 5: صوفیہ کی حیرت اور کرنل کی مسکراہٹ
صوفیہ کی حیرت اور کرنل کی مسکراہٹ
دوسری صبح....صوفیہ کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب اس نے دیکھا کہ کرنل اس خبطی آدمی کی ضرورت سے زیادہ خاطر و مدارت کر رہا ہے۔
انور اور عارف اپنے کمروں ہی میں ناشتہ کرتے تھے! وجہ یہ تھی کہ کرنل کو وٹامنز کا خبط تھا۔ اس کے ساتھ انہیں بھی ناشتہ میں کچھ ترکاریاں اور بھیگے ہوئے چنے زہر مار کرنے پڑتے تھے! اس لئے انہوں نے دیر سے سو کر اٹھنا شروع کر دیا تھا۔ آج کل تو ایک اچھا خاصا بہانہ ہاتھ آیا تھا کہ وہ کافی رات گئے تک رائفلیں لئے ٹہلا کرتے تھے۔
آج ناشتے کی میز پر صرف صوفیہ، عمران اور کرنل تھے.....اور عمران کرنل سے بھی کچھ زیادہ "وٹامن زدہ" نظر آرہا تھا.... کرنل تو بھیگے ہوئے چنے ہی چبار رہا تھا مگر عمران نے یہ حرکت کی کہ چنوں کو چھیل چھیل کر چھلکے الگ اور دانے الگ رکھتا گیا! صوفیہ اسے حیرت سے دیکھ رہی تھی جب چھلکوں کی مقدار زیادہ ہو گئی تو عمران نے انہیں چبانا شروع کر دیا!
صوفیہ کو ہنسی آگئی….. کرنل نے شائد ادھر دھیان نہیں دیا تھا صوفیہ کے بنسنے پر وہ چونکا اور پھر اس کے ہونٹوں پر بھی خفیف سی مسکراہٹ پھیل گئی۔
عمران احمقوں کی طرح ان دونوں کو باری باری دیکھنے لگا۔ لیکن چھلکوں سے اس کا شغل اب بھی جاری تھا!
"شائد آپ کچھ غلط کھا رہے ہیں۔" صوفیہ نے ہنسی ضبط کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
"ہائیں!" عمران آنکھیں پھاڑ کر بولا۔ "غلط کھا رہا ہوں۔“
پھر وہ گھبراکر اسی طرح اپنے دونوں کان جھاڑنے لگا جیسے وہ اب تک سارے نوالے کانوں ہی میں رکھتا رہا ہو....صوفیہ کی ہنسی تیز ہو گئی۔
”میرا....مطلب....یہ ہے کہ آپ چھلکے کھارہے ہیں۔“ اس نے کہا۔
"اوہ اچھا اچھا!" عمران ہنس کر سر ہلانے لگا! پھر اس نے سنجیدگی سے کہا۔ "میری صحت روز بروز خراب ہوتی جارہی ہے....اس لئے میں غذا کا وہ حصہ استعمال کرتا ہوں جس میں
صرف وٹامن پائے جاتے ہیں۔ یہ چھلکے وٹامن سے لبریز ہیں! میں صرف چھلکے کھاتا ہوں! آلو کا چھلکا! پیاز کا چھلکا.... گیہوں کا بھوسی.... وغیرہ وغیره....."
"تم شیطان ہو!" کرنل بنسنے لگا۔ "میرا مذاق اڑا رہے ہو!"
عمران اپنا منہ پیٹنے لگے ”ارے توبہ توبہ.... یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔“ کرنل بدستور ہنستا رہا۔
صوفیہ حیرت میں پڑ گئی اگر یہ حرکت کسی اور سے سرزد ہوئی ہوتی تو کرنل شائد جھلاہٹ میں رائفل نکال لیتا! کبھی وہ عمران کو گھورتی تھی اور کبھی کرنل کو جو بار بار اچھی طشتریوں کی طرف عمران کی توجہ مبذول کراتا جارہا تھا۔
"کیا وہ دونوں گدھے ابھی سو رہے ہیں۔" دفعتاً کرنل نے صوفیہ سے پوچھا۔
"جی ہاں۔۔!"
"میں تنگ آگیا ہوں ان سے، میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ان کا مستقبل کیا ہو گا۔“
صوفیہ کچھ نہ بولی کرنل بڑبڑاتا رہا۔
ناشتے سے فارغ ہو کر عمران باہر آگیا۔
پہاڑیوں میں دھوپ پھیلی ہوئی تھی! عمران کسی سوچ میں ڈوبا ہوا دور کی پہاڑیوں کی طرف دیکھ رہا تھا! سوناگری کی شاداب پہاڑیاں گرمیوں میں کافی آباد ہو جاتی ہیں! نزدیک و دور کے میدانی علاقوں کی تپش سے گھبرائے ہوئے ذی حیثیت لوگ عموماً یہیں پناہ لیتے ہیں۔ ہوٹل آباد ہو جاتے ہیں اور مقامی لوگوں کے چھوٹے چھوٹے مکانات بھی رشک ارم بن جاتے ہیں! وہ عموماً گرمیوں میں انہیں کرایہ پر اٹھا دیتے ہیں اور خود چھوٹی چھوٹی جھونپڑیاں بنا کر رہتے ہیں....اپنے کرایہ داروں کی خدمات بھی انجام دیتے ہیں۔ جس کے صلے میں انہیں اچھی خاصی آمدنی ہو جاتی اور پھر سردیوں کا زمانہ اسی کمائی کے بل بوتے پر تھوڑی بہت آسائش کے ساتھ ضرور گزارتے ہیں۔
کرنل ضرغام کی مستقل سکونت یہیں کی تھی اور اس کا شمار یہاں کے سربرآوردہ لوگوں میں ہو تا تھا! صوفیہ اس کی اکلوتی لڑکی تھی!.... انور اور عارف بھیجے تھے جو گرمیاں عموماً اس کے ساتھ گذارا کرتے تھے!..
عمران نے ایک طویل انگڑائی لی اور سامنے سے نظریں ہٹا کر ادھر اُدھر دیکھنے لگا۔ شہوتوں کی میٹھی میٹھی ہو چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی! عمران جہاں کھڑا تھا اسے پائیں باغ تو نہیں کہا جاسکتا لیکن یہ تھا باغ ہی.... آڑو، خوبانی، سیب اور شہتوت کے درخت عمارت کے چاروں طرف پھیلے ہوئے تھے۔ زمین پر گرے ہوئے شہوت نہ جانے کب سے سڑ رہے تھے اور ان کی میٹھی بو ذہن پر گراں گزرتی تھی۔
عمران اندر جانے کے لئے مڑا ہی تھا کہ سامنے سے صوفیہ آتی دکھائی دی۔ انداز سے معلوم ہور ہا تھا کہ وہ عمران ہی کے پاس آرہی ہے! عمران رک گیا۔
"کیا آپ پرائیویٹ سراغرساں ہیں!" صوفیہ نے آتے ہی سوال کیا۔
"سراغرساں۔" عمران نے حیرت زدہ لہجے میں دہرایا۔ "نہیں تو۔۔ ہمارے ملک میں تو پرائیویٹ سراغرساں قسم کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی۔“
”پھر آپ کیا ہیں؟“
”میں" عمران نے سنجیدگی سے کہا۔ ”میں کیا ہوں.... مرزا غالب نے میرے لئے ایک شعر کہا تھا...
حیران ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں!!
میں حقیقتاً کرایہ کا ایک نوحہ گر ہوں! صاحب مقدر لوگ دل یا جگر کو پٹوانے کے لئے مجھے کرایہ پر حاصل کرتے ہیں!.... اور پھر میں انہیں حیران ہونے کا بھی.... وہ نہیں دیتا کیا کہتے ہیں
اسے... موقعہ موقعہ...."
صوفیہ نے نیچے سے اوپر تک اسے گھور کر دیکھا! عمران کے چہرے پر برسنے والی حماقت کچھ اور زیادہ ہو گئی۔
"آپ دوسروں کو الو کیوں سمجھتے ہیں۔“ صوفیہ بھنا کر بولی۔
”مجھے نہیں یاد پڑتا کہ میں نے کبھی کسی الو کو بھی الو سمجھا ہو۔“
”آپ آج جار ہے تھے۔“
"چہ چہ! مجھے افسوس ہے!... کرنل صاحب نے تسلی کے لئے میری خدمات حاصل کرلی ہیں!... میرا سائیڈ بزنس تسلی اور دلاسہ دینا بھی ہے۔“
صوفیہ کچھ دیر خاموش رہی پھر اس نے کہا۔ ”تو اس کا یہ مطلب ہے کہ آپ نے سارے معاملات سمجھ لئے ہیں۔“
”میں اکثر کچھ سمجھے بوجھے بغیر بھی تسلیاں دیتا رہتا ہوں۔“ عمران نے مغموم لہجے میں کہا۔
"ایک بار کا ذکر ہے کہ ایک آدمی نے میری خدمات حاصل کیں!....میں رات بھر اسے تسلیاں دیتا رہا لیکن جب صبح ہوئی تو میں نے دیکھا کہ اس کی کھوپڑی میں دو سوراخ ہیں اور وہ نہ دل کو رو سکتا ہے اور نہ جگر کو پیٹ سکتا ہے۔“
”میں نہیں سمجھی۔“
"ان سوراخوں سے بعد کو ریوالور کی گولیاں بر آمد ہوئی تھیں!…. معجزہ تھا جناب معجزه!…. سچ مچ یہ معجزوں کا زمانہ ہے! پرسوں ہی اخبار میں میں نے پڑھا تھا کہ ایران میں ایک ہاتھی نے مرغی کے انڈے دیتے ہیں۔“
”آپ بہت اذیت پسند معلوم ہوتے ہیں۔“ صوفیہ منہ بگاڑ کر بولی۔
"آپ کی کوٹھی بڑی شاندار ہے۔" عمران نے موضوع بدل دیا۔
"میں پوچھتی ہوں آپ ڈیڈی کے لئے کیا کر سکیں گے!" صوفیہ جھنجھلا گئی۔
"دلاسہ دے سکوں گا....."
صوفیہ کچھ کہنے ہی والی تھی کہ بر آمدے کی طرف سے کرنل کی آواز آئی۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں