چٹانوں میں فائر | 6: ڈر اور دوستی کی دہلیز
ڈر اور دوستی کی دہلیز
”ارے....تم یہاں ہو...!"
پھر وہ قریب آکر بولا۔ "گیارہ بجے ٹرین آتی ہے۔ وہ دونوں گدھے کہاں ہیں تم لوگ اسٹیشن چلے جاؤ-- میں نہ جا سکوں گا!"
"کیا یہ واپس نہیں جائیں گے۔" صوفیہ نے عمران کی طرف دیکھ کر کہا۔
"نہیں" کرنل نے کہا "جلدی کرو ساڑھے نو بج گئے ہیں!"
صوفیہ چند لمحے کھڑی عمران کو گھورتی رہی پھر اندر چلی گئی!
"کیا آپ کے یہاں مہمان آرہے ہیں۔" عمران نے کرنل سے پوچھا۔
"ہاں میرے دوست ہیں!" کرنل بولا۔ "کرنل ڈکسن!... یہ ایک انگریز ہے، مس ڈکسن اس کی لڑکی اور مسٹر بار توش..."
"بار توش!" عمران بولا۔ ”کیا زیکو سلویکیا کا باشندہ ہے۔“
”ہاں۔۔ کیوں؟ تم کیسے جانتے ہو؟“
"اس قسم کے نام صرف ادھر ہی پائے جاتے ہیں۔“
"بار توش ڈکسن کا دوست ہے۔ میں نے اسے پہلے کبھی نہیں دیکھا ہے وہ مصور بھی ہے۔“
"کیا وہ کچھ دن ٹھہریں گے!"
"ہاں شائد گرمیاں یہیں گزاریں!"
"کیا آپ ان لوگوں سے لی یوکا والے معاملے کا تذکرہ کریں گے۔“
”ہر گز نہیں!" کر نل نے کہا۔ ”لیکن تمہیں اس کا خیال کیسے پیدا ہوا۔ “
یو نہی!۔۔ البتہ میں ایک خاص بات سوچ رہا ہوں۔“
"کیا؟"
”وہ لوگ آپ پر ابھی تک قریب قریب سارے حربے استعمال کر چکے ہیں لیکن کاغذات حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ کاغذات حاصل کئے بغیر وہ آپ کو قتل بھی نہیں کر سکتے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ اسکے بعد وہ کسی اور کے ہاتھ لگ جائیں۔ اب میں یہ سوچ رہا ہوں.... کیا آپ لڑکی یا بھتیجوں کی موت برداشت کر سکیں گے۔"
"کیا بک رہے ہو!" کرنل کانپ کر بولا۔
"میں ٹھیک کہہ رہا ہوں!" عمران نے سر ہلا کر کہا۔ "فرض کیجئے وہ صوفیہ کو پکڑ لیں!......پھر آپ سے کاغذات کا مطالبہ کریں۔۔اس صورت میں آپ کیا کریں گے!“
"میرے خدا!" کرنل نے آنکھیں بند کر کے ایک ستون سے ٹیک لگالی۔
عمران خاموش کھڑا رہا پھر کرنل آنکھیں کھول کر مردہ سی آواز میں بولا۔
"تم ٹھیک کہتے ہو! میں کیا کروں۔ میں نے اس کے متعلق کبھی نہیں سوچا تھا۔“
"صوفیہ کو اسٹیشن نہ بھیجئے۔"
”اب میں انور اور عارف کو بھی نہیں بھیج سکتا۔“
"ٹھیک ہے!.... آپ خود کیوں نہیں جاتے۔“
"میں ان لوگوں کو تنہا بھی نہیں چھوڑ سکتا۔“
"اس کی فکر نہ کیجئے! میں موجود رہوں گا۔“
"تم!…." کرنل نے اسے اس طرح دیکھا جیسے وہ بالکل خالی الذہن ہو! "تم۔۔ کیا تم کسی خطرے کا مقابلہ کر سکو گے!"
"ہاہا۔۔ کیوں نہیں.... کیا آپ نے میری ہوائی بندوق نہیں دیکھی!"
"سنجیدگی! میرے لڑکے .... سنجیدگی۔" کرنل بے صبری سے ہاتھ اٹھا کر بولا۔
"کیا آپ کیپٹن فیاض کو بھی احمق سمجھتے ہیں!“
"آں۔۔۔ نہیں۔“
"تب پھر آپ بے کھٹکے جاسکتے ہیں! میری ہوائی بندوق ایک چڑے سے لے کر ہرن تک شکار کر سکتی ہے۔“
”تم میرا ریوالور پاس رکھو!“
"ارے تو بہ تو بہ۔" عمران اپنا منہ پیٹنے لگا۔ "اگر وہ سچ مچ چل ہی گیا تو کیا ہو گا!"
کرنل چند لمحے عمران کو گھورتا رہا۔ پھر بولا۔۔”اچھا میں انہیں رو کے دیتا ہوں!“
"ٹھہریے! ایک بات اور سینیئے!" عمران نے کہا.... اور پھر آہستہ آہستہ کچھ کہتا رہا....
کرنل کے چہرے کی رنگت کبھی پیلی پڑ جاتی تھی اور کبھی وہ پھر اپنی اصل حالت پر آجاتا تھا۔
مگر تھوڑی دیر بعد اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیر کر بولا۔ ”میں نہیں سمجھ سکتا۔“
"آپ سب کچھ سمجھ سکتے ہیں! اب جائے۔"
"اوه --- مگر!"
"نہیں کرنل.... میں ٹھیک کہہ رہا ہوں۔“
"تم نے مجھے الجھن میں ڈال دیا ہے۔“
"کچھ نہیں۔۔ بس آپ جائیے۔“
کرنل اندر چلا گیا!.... عمران وہیں کھڑا کچھ دیر تک اپنے ہاتھ ملتا رہا! پھر اس کے ہونٹوں پر پھیکی سی مسکراہٹ پھیل گئی۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں