چٹانوں میں فائر | 7: شطرنج، مذاق اور عمران کا مُعمّہ

 شطرنج، مذاق اور عمران کا مُعمّہ

Chapter 7 Feature Image

انور اور عارف دونوں کو اس کا بڑا افسوس تھا کہ کرنل نے انہیں اسٹیشن جانے سے روک دیا۔ انہیں اس سے پہلے کرنل ڈکسن یا اس کی لڑکی سے ملنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔ صوفیہ بھی اسٹیشن جانا چاہتی تھی.... اسے بھی بڑی کوفت ہوئی۔

"آپ نہیں گئے کرنل صاحب کے ساتھ۔“ عارف نے عمران سے پوچھا۔

”نہیں۔“ عمران نے لا پرواہی سے کہا اور چیونگم چوسنے لگا۔

”میں نے سنا ہے کہ کرنل صاحب آپ سے بہت خوش ہیں۔“

"ہاں۔۔ آں میں انہیں رات بھر الیفے سناتا رہا۔“

"لیکن ہم لوگ کیوں ہٹا دیے گئے تھے۔“

"لطیفے بچوں کے سننے کے لائق نہیں تھے۔“

"کیا کہا بچے!" عارف جھلا گیا۔

"ہاں بچے!" عمران مسکرا کر بولا۔ ”کرنل صاحب مجھے جوانی کی معاشقوں کا حال بتارہے تھے۔“

”کیا بکواس ہے۔“

”ہاں بکواس تو تھی ہی!" عمران نے سنجیدگی سے کہا۔ ”ان کی جوانی کے زمانے میں فوجیوں پر عاشق ہونے کا رواج نہیں تھا! اس وقت کی لڑکیاں صرف عاشقوں سے عشق کرتی تھیں!“

"سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ کس قسم کے آدمی ہیں۔“

"ہائیں۔ اب آپ یہ سمجھتے ہیں کہ قصور میرا ہے۔" عمران نے حیرت سے کہا۔ کرنل صاحب خود ہی سنارہے تھے۔“

عارف ہنسنے لگا۔ پھر اس نے تھوڑی دیر بعد پوچھا۔

”وہ بندر کیسا تھا۔“

"اچھا تھا؟“

”خدا سمجھے!" عارف نے بھنا کر کہا اور وہاں سے چلا گیا۔

پھر عمران ٹہلتا ہوا اس کمرے میں آیا جہاں انور اور صوفیہ شطرنج کھیل رہے تھے۔ وہ چپ چاپ کھڑا ہو کر دیکھنے لگا... اچانک انور نے صوفیہ کو شہ دی!.... اس نے بادشاہ کو اٹھا کر دوسرے خانے میں رکھا!... دوسری طرف سے انور نے فیل اٹھا کر پھر شہ دی!.... صوفیہ بچنے ہی جارہی تھی کہ عمران بول پڑا۔

"اوں....ہونہہ! یہاں رکھیئے!“

"کیا..." صوفیہ جھلا کر بولی۔ "آپ کو شطرنج آتی ہے یا یونہی....بادشاہ ایک گھر سے زیادہ نہیں چل سکتا۔“

"تب وہ بادشاہ ہوا یا کیچوا.... بادشاہ تو مرضی کا مالک ہوتا ہے! یہ کھیل ہی غلط ہے! گھوڑے کی چھلانگ ڈھائی گھر کی... فیل ترچھا سپاٹا بھرتا ہے چاہے جتنی دور چلا جائے!.... رخ ایک سرے

سے دوسرے سرے تک سیدھا دوڑتا ہے اور فرزیں جدھر چاہے چلے کوئی روک ٹوک نہیں ! گویا بادشاہ گھوڑے سے بھی بدتر ہے.... کیوں نہ اسے گدھا کہا جائے جو اس طرح ایک خانے میں

رینگتا پھرتا ہے۔“

"یار تم واقعی بقراط ہو۔“ انور ہنس کر بولا۔

"چلو۔۔ چال چلو!“ صوفیہ نے جھلا کر انور سے کہا۔

صوفیہ سوچ سمجھ کر نہیں کھیلتی تھی اس لئے اسے جلدی ہی مات ہو گئی۔

انور اسے چڑانے کے لئے ہنسنے لگا تھا!... صوفیہ اسکی اس حرکت کی طرف دھیان دیے بغیر عمران سے مخاطب ہو گئی۔

"آپ نے ڈیڈی کو تنہا کیوں جانے دیا۔“

"میں نہتا ہو کر کہیں نہیں جانا چاہتا۔“ عمران نے کہا۔

"کیا مطلب؟"

"میں ان سے کہہ رہا تھا کہ میں اپنی ہوائی بندوق ساتھ لے چلوں گا لیکن وہ اس پر تیار نہیں ہوئے!"

"کیا آپ واقعی ہوائی بندوق سے مکھیاں مارتے ہیں۔" انور نے شوخ مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا۔

"جناب!" عمران سینے پر ہاتھ رکھ کر تھوڑا سا جھکا پھر سیدھا کھڑا ہو کر بولا۔ " پچھلی جنگ میں مجھے وکٹوریہ کراس ملتے ملتے رہ گیا! میں ہسپتالوں میں مکھیاں مارنے کے فرائض انجام دیتا رہا! اتفاق سے ایک دن ایک ڈاکٹر کی ناک پر بیٹھی ہوئی مکھی کا نشانہ لیتے وقت ذرا سی چوک ہو گئی.... قصور میرا نہیں مکھی ہی کا تھا کہ وہ ناک سے اُڑ کر آنکھ پر جا بیٹھی!.... بہرحال اس حادثہ کے بعد میری ساری پچھلی خدمات پر سوڈا واٹر پھیر دیا گیا۔“

”سوڈا واٹر!“ انور نے قہقہہ لگایا!... صوفیہ بھی بنسنے لگی!

"جی ہاں! اس زمانے میں خالص پانی نہیں ملتا تھا! ور نہ میں یہ کہتا کہ میرے سابقہ کارناموں پر پانی پھیر دیا گیا!“

"خوب! آپ بہت دلچسپ آدمی ہیں!“ صوفیہ بولی۔

”میرا دعوٰی ہے کہ میرا نشانہ بہت صاف ہے۔“

"تو پھر دکھائیے نا۔“ انور نے کہا۔

”ابھی لیجئے!“

عمران اپنے کمرے سے ایئرگن نکال لایا.... پھر اس میں چھرہ لگا کر بولا۔

"جس مکھی کو کہئے!"

سامنے والی دیوار پر کئی مکھیاں نظر آرہی تھی۔ انور نے ایک کی طرف اشارہ کر دیا۔

"جتنے فاصلے سے کہئے!" عمران بولا۔

"آخری سرے پر چلے جائیے۔"

"بہت خوب۔" عمران آگے بڑھ گیا! فاصلہ اٹھارہ فٹ ضرور رہا ہو گا۔

عمران نے نشانہ لے کر ٹریگر دبا دیا!۔۔ مکھی دیوار سے چپک کر رہ گئی صوفیہ دیکھنے کے لئے دوڑی۔۔ پھر اس نے انور کی طرف مڑ کر تحیر آمیز لہجے میں کہا۔

"سچ سچ کمال ہے! ڈیڈی کا نشانہ بہت اچھا ہے. لیکن شائد وہ بھی..."

"اوہ کونسی بڑی بات ہے!" انور شیخی میں آگیا۔ ”میں خود لگا سکتا ہوں۔“

اس نے عمران کے ہاتھ سے بندوق لی تھوڑی دیر بعد صوفیہ بھی اس شغل میں شامل ہو گئی.... دیواروں کا پلاسٹر برباد ہو رہا تھا.... اور ان پر گویا مکھیاں مارنے کا بھوت سوار ہو گیا تھا۔ پھر عارف بھی آ کر شریک ہو گیا۔ کافی دیر تک یہ کھیل جاری رہا.... لیکن کامیابی کسی کو بھی نہ ہوئی اچانک صوفیہ بڑبڑائی۔

”لا حول ولا قوة--- کیا حماقت ہے.... دیواریں برباد ہو گئیں۔“

پھر وہ سب جھینپی ہوئی ہنسی بنسنے لگے لیکن عمران کی حماقت آمیز سنجیدگی میں ذرہ برابر بھی فرق نہ آیا۔

"واقعی دیواریں برباد ہو گئیں!" عارف بولا "کرنل صاحب ہمیں زندہ دفن کر دیں گے۔“

”سب آپ کی بدولت!“ انور نے عمران کی طرف اشارہ کر کے کہا۔

”میری بدولت کیوں! میں نے تو صرف ایک ہی مکھی پر نشانہ لگایا تھا۔“

انور ہنسنے لگا! پھر اس نے عمران کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔

"یار سچ بتانا کیا تم واقعی احمق ہو۔“

عمران نے بڑے مغموم انداز میں سر ہلا دیا۔

"لیکن کل رات تم نے منشیات کی ناجائز تجارت کے متعلق کیا بات کہی تھی!"

"مجھے یاد نہیں!“ عمران نے حیرت سے کہا۔

"پھر کرنل صاحب نے ہمیں ہٹا کیوں دیا تھا۔"

"ان سے پوچھ لیجئے گا!" عمران نے عارف کی طرف اشارہ کیا اور عارف بنسنے لگا۔

"کیا بات تھی!" انور نے عارف سے پوچھا۔

"ارے کچھ نہیں۔۔ بکواس!" عارف ہنستا ہوا بولا۔

"آخر بات کیا تھی۔“

”پھر بتاؤں گا۔“

صوفیہ عمران کو گھور نے لگی۔

"وہ بندر کیا تھا؟“ انور نے عمران سے پوچھا۔

"اچھا خاصا تھا!.... آرٹ کا ایک بہترین نمونہ۔“

"گھاس کھا گئے ہو شاید!“ انور جھلا گیا!

"ممکن ہے لنچ میں گھاس ہی ملے۔" عمران نے مسکین صورت بنا کر کہا۔ ”ناشتے میں تو چنے کے چھلکے کھائے تھے۔“

تینوں بے تحاشہ بنسنے لگے لیکن صوفیہ جلدی سے سنجیدہ ہو گئی اور اس نے غصیلی آواز میں کہا۔

"آپ ڈیڈی کا مذاق اڑانے کی کوشش کر رہے تھے۔ پتہ نہیں وہ کیوں خاموش رہ گئے۔“

"ممکن ہے انہیں خیال آگیا ہو کہ میرے پاس بھی ہوائی بندوق موجود ہے۔“ عمران نے سنجیدگی سے کہا۔ ”اور حقیقت یہ ہے کہ میں ان کا مذاق اڑانے کی کوشش ہرگز نہیں کر رہا تھا!۔۔ میں بھی وٹامن پر جان چھڑکتا ہوں! وٹامنز کو خطرے میں دیکھ کر مجھے پوری قوم خطرے میں نظر آنے لگتی ہے۔“

"کیا بات تھی۔“ انور نے صوفیہ سے پوچھا۔

"کچھ نہیں۔" صوفیہ نے بات ٹالنی چاہی۔ لیکن انور پیچھے پڑ گیا! جب صوفیہ نے محسوس کیا کہ جان چھڑانی مشکل ہے تو اس نے ساری بات دہرادی ....اس پر قہقہہ پڑا....

"یار کمال کے آدمی ہو۔“ انور ہنستا ہوا بولا۔

"پہلی بار آپ کے منہ سے سن رہا ہوں، ورنہ میرے ڈیڈی تو مجھے بالکل بدھو سمجھتے ہیں۔“

"تو پھر آپ کے ڈیڈی ہی...."

"اررر!" عمران ہاتھ اٹھا کر بولا۔ "ایسا نہ کہئے! وہ بہت بڑے آدمی ہیں.... ڈائریکٹر جنرل آف انٹیلی جنس بیورو!"

"کیا؟“ انور حیرت سے آنکھیں پھاڑ کر بولا۔ ”یعنی رحمان صاحب!“

"جی ہاں۔" عمران نے لاپروائی سے کہا۔

"ارے تو آپ وہی عمران ہیں.... جس نے لندن میں امریکی غنڈے مکلارنس کا گروہ توڑا تھا!“

”پتہ نہیں آپ کیا کہہ رہے ہیں!“ عمران نے حیرت کا اظہار کیا۔

"نہیں نہیں! آپ وہی ہیں۔" انور کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگی تھیں وہ صوفیہ کی طرف مڑ کر ندامت آمیز لہجے میں بولا۔ "ہم ابھی تک ایک بڑے خطرناک آدمی کا مذاق اڑا رہے ہیں۔“

صوفیہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے عمران کی طرف دیکھنے لگی اور عمران نے ایک حماقت آمیز قہقہہ لگا کر کہا۔ " آپ لوگ نہ جانے کیا ہانک رہے ہیں۔“

"نہیں صوفی!“ انور بولا ”میں ٹھیک کہہ رہا ہوں میرا ایک دوست راشد آکسفورڈ میں ان کے ساتھ تھا! اس نے مجھے مکلارنس کا واقعہ سنایا تھا۔ وہ مکلارنس جس کا وہاں کی پولیس کچھ نہیں بگاڑ سکی تھی۔ عمران صاحب سے ٹکرانے کے بعد اپنے گروہ سمیت فنا ہو گیا تھا!“

"خوب ہوائی چھوڑی ہے کسی نے!" عمران نے مسکرا کر کہا۔

"مکلارنس کے سر کے دو ٹکڑے ہو گئے تھے۔" انور بولا۔

"ارے تو بہ تو بہ" عمران اپنا منہ پیٹنے لگا! "اگر میں نے اسے مارا ہو تو میری قبر میں کٹر گھسے…. نہیں بگھو…. بھگو…. ہائیں نہیں غلط.... کیا کہتے ہیں اس چھوٹے سے جانور کو جو

قبروں میں گھستا ہے!“

"بجو!“ عارف بولا۔

"خدا جیتا ر کھے.... بجو، بجو!“

"عمران صاحب میں معافی چاہتا ہوں!" انور نے کہا

”ارے آپ کو کسی نے بہکایا ہے۔“

”نہیں جناب مجھے یقین ہے۔“

صوفیہ اس دوران میں کچھ نہیں بولی۔ وہ برابر عمران کو گھورے جارہی تھی۔ آخر اس نے تھوک نگل کر کہا۔

"مجھے کچھ کچھ یاد پڑتا ہے کہ ایک بار کیپٹن فیاض نے آپ کا تذکرہ کیا تھا۔"

"کیا ہوگا.... مجھے وہ آدمی سخت نا پسند ہے! اس نے پچھلے سال مجھ سے ساڑھے پانچ روپے ادھار لئے تھے۔ آج تک واپس نہیں کئے!...."

تبصرے