چٹانوں میں فائر | 8: کرنل ضرغام کی گمشدگی

 کرنل ضرغام کی گمشدگی

Chapter 8 Feature Image

پونے بارہ بجے کرنل ڈکسن، اس کی لڑکی اور مسٹر بارتوش کرنل کی کوٹھی میں داخل ہوئے لیکن کرنل ان کے ساتھ نہیں تھا۔

کرنل ڈکسن ادھیڑ عمر کا ایک دبلا پتلا آدمی تھا! آنکھیں نیلی مگر دھندلی تھیں۔ مونچھوں کا نچلا تمباکو نوشی کی کثرت سے براؤن رنگ کا ہو گیا تھا! اس کی لڑکی نوجوان اور کافی حسین تھی!... ہنستے وقت اس کے گالوں میں خفیف سے گڑھے پڑ جاتے تھے۔

بارتوش اچھے تن و توش کا آدمی تھا اگر اسے بارتوش کی بجائے صرف تن و توش کہا جاتا تو غیر مناسب نہ ہوتا اس کے چہرے پر بڑے آرٹسٹک قسم کی ڈاڑھی تھی! چہرے کی رنگت میں پھیکا پن تھا! مگر اس کی آنکھیں بڑی جاندار تھیں! اور وہ اتنی جاندار نہ ہو تیں تو چہرے کی رنگت کی بنا پر کم از کم پہلی نظر میں تو اسے ورم جگر کا مریض ضرور ہی سمجھا جاسکتا تھا!

"ہیلو بے بی!" کرنل ڈکسن نے صوفیہ کا شانہ تھپتھپاتے ہوئے کہا۔ "اچھی تو ہو! مجھے خیال تھا کہ تم لوگ اسٹیشن ضرور آؤ گے۔“

قبل ازیں کہ صوفیہ کچھ کہتی !ڈکسن کی لڑکی اس سے لپٹ گئی!

پھر تعارف شروع ہوا.... جب عمران کی باری آئی تو صوفیہ کچھ جھجکی!

عمران آگے بڑھ کر خود بولا۔”میں کرنل ضرغام کا سیکرٹری ہوں انادان.... ر.... مسٹر نادان!“ پھر وہ بڑے بے تکے پن سے ہنسنے لگا! کرنل ڈکسن نے لا پروائی کے انداز میں اپنے شانے سکوڑے اور دوسری طرف دیکھنے لگا۔

"ضرغی کہاں ہے“ کرنل ڈکسن نے چاروں طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

"کیا وہ آپ کے ساتھ نہیں ہیں۔“ صوفیہ چونک کر بولی۔

"میرے ساتھ!" کرنل ڈکسن نے حیرت سے کہا۔ ”نہیں تو!“

”اوہ نہیں.... اوہ نہیں۔"

”کیا وہ آپ کو اسٹیشن پر نہیں ملے۔“ صوفیہ کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں!

صوفیہ نے عمران کی طرف دیکھا اور اس نے اپنی بائیں آنکھ دبادی! لیکن صوفیہ کی پریشانی میں کمی واقع نہیں ہوئی! اس نے بہت جلد اس سے تنہائی میں ملنے کا موقع نکال لیا!...

”ڈیڈی کہاں گئے؟“

"پتہ نہیں!"

"اور آپ اطمینان سے بیٹھے ہوئے ہیں!“

”ہاں --- آں؟“

"خدا کے لئے سنجیدگی اختیار کیجئے!“

"فکر مت کیجئے! میں کرنل کا ذمہ دار ہوں۔“

"میں انہیں تلاش کرنے جارہی ہوں۔“

"ہرگز نہیں! آپ کوٹھی سے باہر قدم نہیں نکال سکتیں۔“

"آخر کیوں؟“

کرنل کا حکم۔“

”آپ عجیب آدمی ہیں!" صوفیہ جھنجھلا گئی!

”موجودہ حالات کا علم مہمانوں کو نہ ہونا چاہئے!.... ان دونوں کو بھی منع کر دیجئے۔"

”انہیں اس کا علم نہیں ہے۔“ صوفیہ نے کہا۔

"اتنا تو جانتے ہی ہیں کہ کرنل کسی خطرے میں ہیں۔“

”ہاں۔“

”اس کا تذکرہ بھی نہ ہونا چاہئے!“

”میرے خدا میں کیا کروں۔“ صوفیہ روہانسی آواز میں بولی۔

”مہمانوں کی خاطر!" عمران پر سکون لہجے میں بولا۔

"آپ سے خدا سمجھے! میں پاگل ہو جاؤں گی!“

"ڈرنے کی بات نہیں! کرنل بالکل خطرے میں نہیں ہیں۔“

"آپ پاگل ہیں۔“ صوفیہ جھنجھلا کر بولی۔

عمران نے اس طرح سر ہلا دیا جسے اسے اپنے پاگل پن کا اعتراف ہو۔

شام ہو گئی لیکن کرنل ضرغام واپس نہ آیا.... صوفیہ کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے! ڈکسن بار بار ضرغام کے متعلق پوچھتا تھا۔ ایک آدھ بار اس نے یہ بھی کہا کہ شاید اب ضرغی اپنے دوستوں سے گھبرانے لگا ہے! اگر یہ بات تھی تو اس نے صاف صاف کیوں نہیں لکھ دیا۔

صوفیہ اس بوکھلاہٹ میں یہ بھی بھول گئی کہ عمران نے اسے کچھ ہدایات دی تھیں۔ جن میں سے ایک یہ بھی تھی کہ انور اور عارف موجودہ حالات کے متعلق مہمانوں سے کوئی گفتگو نہ کریں۔

صوفیہ انور اور عارف سے اس کا تذکرہ کرنا بھول گئی…..

اور پھر جس وقت عارف سے حماقت سرزد ہوئی تو صوفیہ وہاں موجود نہیں تھی.... وہ باورچی خانے میں باورچیوں کا ہاتھ بٹار ہی تھی اور عمران باتیں بنارہا تھا۔

ڈکسن وغیرہ برآمدے میں تھے!.... انور بارتوش سے رافیل کی تصویروں کے متعلق گفتگو کر رہا تھا!.... عارف ڈکسن کی لڑکی مارتھا کو اپنے البم دکھا رہا تھا اور ڈکسن دور کے پہاڑوں کی

چوٹیوں میں شفق کے رنگین لہریے دیکھ رہا تھا! اچانک اس نے عارف کی طرف مڑ کر کہا۔

"ضرغی سے ایسی امید نہیں تھی!"

عارف اس وقت موج میں تھا! اس میں نہ جانے کیوں ان لوگوں کے لئے اپنائیت کا احساس بڑی شدت سے پیدا ہو گیا! ہو سکتا ہے کہ اس کی وجہ کرنل کی شوخ اور خوبصورت لڑکی مارتھا رہی ہو۔

"کرنل صاحب! یہ ایک بڑا گہرا راز ہے!" عارف نے البم بند کرتے ہوئے کہا!

"راز...." کرنل ڈکسن بڑبڑا کر اسے گھورنے لگا۔

"جی ہاں.... وہ تقریباً پندرہ بیس دن سے سخت پریشان تھے اس دوران میں ہم لوگ رات رات بھر جاگتے رہے ہیں!.... انہیں کسی کا خوف تھا! وہ کہتے تھے کہ میں کسی وقت بھی کسی حادثے کا شکار ہو سکتا ہوں..... اور نہ جانے کیوں وہ اسے راز ہی رکھنا چاہتے تھے!"

"بڑی عجیب بات ہے! تم لوگ اس پر بھی اتنے اطمینان سے بیٹھے ہو!" کرنل اچھل کر کھڑا ہوتا ہوا بولا۔

"بارتوش اور انور انہیں گھوڑ نے لگے! انور نے شائد ان کی گفتگو سن لی تھی اسی لئے وہ عارف کو کھا جانے والی نظروں سے گھور رہا تھا! حالانکہ اسے بھی اس بات کو مہمانوں سے چھپانے کی تاکید نہیں کی تھی لیکن اسے کم از کم اس کا احساس تھا کہ خود کرنل ضرغام ہی اسے راز رکھنا چاہتا ہے!..

"صوفیہ کہاں ہے!" کرنل ڈکسن نے عارف سے کہا۔

"شاید کچن میں!"

کرنل ڈکسن نے کچن کی راہ لی.... بقیہ لوگ وہیں بیٹھے رہے۔

صوفیہ فرائینگ پین میں کچھ تل رہی تھی! اور عمران اس کے قریب خاموش کھڑا تھا۔

"صوفی!" کرنل ڈکسن نے کہا۔ "یہ کیا معاملہ ہے۔“

"اوہ آپ!" صوفیہ چونک پڑی۔ "یہاں تو بہت گرمی ہے میں ابھی آتی ہوں۔“

"پرواہ نہ کرو! یہ بتاؤ ضرغی کا کیا معاملہ ہے۔"

عمران نے الوؤں کی طرح اپنے دیدے پھرائے۔

"مجھے خود تشویش ہے کہ ڈیڈی کہاں چلے گئے!" صوفیہ نے کہا۔

"جھوٹ مت بولو۔ ابھی مجھے عارف نے بتایا ہے۔“

"اوه-- وہ" صوفیہ تھوک نگل کر رہ گئی۔ پھر اس نے عمران کی طرف دیکھا۔

"بات یہ ہے کہ کرنل صاحب! وہ ساری باتیں بڑی مضحکہ خیز ہیں۔“ عمران نے کہا۔

"ایسی صورت میں بھی جب ضرغام اس طرح غائب ہو گیا ہے؟“ کرنل نے سوال کیا!

"وہ اکثر یہی کر بیٹھتے ہیں کئی کئی دن گھر سے غائب رہتے ہیں! کوئی خاص بات نہیں۔“ عمران بولا۔

”میں مطمئن نہیں ہوا۔“

"آه.... کنفیوشس نے بھی ایک بار یہی کہا تھا۔“

کرنل نے اسے غصیلی نظروں سے دیکھا اور صوفیہ سے بولا۔ ”جلدی آنا۔ میں برآمدے میں تمہارا انتظار کروں گا۔“

ڈکسن چلا گیا!

”بڑی مصیبت ہے!“ صوفیہ بڑبڑائی۔ ”میں کیا کروں۔“

"یہ مصیبت تم نے خود ہی مول لی ہے۔ عارف کو منع کیوں نہیں کیا تھا؟“ عمران بولا۔

”انہی الجھنوں میں بھول گئی تھی۔“

”میں نے تمہیں اطمینان دلایا تھا۔ پھر کیسی الجھن.... یہاں تک بتادیا کہ کرنل کو میں نے ہی ایک محفوظ مقام پر بھجوا دیا ہے۔“

"لیکن یہ الجھن کیا کم تھی کہ مہمانوں کو کیا بتاؤں گی!"

"کیا مہمان اس اطلاع کے بغیر مر جاتے؟ تمہارے دونوں کزن مجھے سخت نا پسند ہیں سمجھیں!“

"اب میں کیا کروں! عارف بالکل الو ہے!“

"خیر۔۔۔" عمران کچھ سوچنے لگا! پھر اس نے کہا! "جلدی کرو.... میں نہیں چاہتا کہ اب میرے متعلق مہمانوں سے کچھ کہا جائے؟“

وہ دونوں بر آمدے میں آئے! یہاں انور اردو میں عارف کی خاصی مرمت کر چکا تھا.... اور اب وہ خاموش بیٹھا تھا۔

”مجھے پورے واقعات بتاؤ!“ کرنل نے صوفیہ سے کہا۔

"پورے واقعات کا علم کرنل کے علاوہ اور کسی کو نہیں۔“ عمران بولا۔

"کس بات کا خوف تھا اسے!" ڈکسن نے پوچھا۔

تبصرے