چٹانوں میں فائر | 9: پراسرار پارسل اور خوف کی کہانی
پراسرار پارسل اور خوف کی کہانی
”وہ لکڑی کے ایک بندر سے بُری طرح خائف تھے۔"
"کیا بکواس ہے!"
"اسی لئے میں کہتا تھا کہ واقعات نہ پوچھئے.... مجھے کرنل صاحب کی ذہنی حالت پر شبہ ہے۔" عمران بولا۔
"اس کے باوجود بھی تم لوگوں نے اسے تنہا گھر سے باہر نکلنے دیا۔“
"ان کی ذہنی حالت بالکل ٹھیک تھی۔" عارف نے کہا۔
"تو پھر بکواس کئے جا رہا ہے۔" انور نے اسے اردو میں ڈانٹا۔
کرنل ڈکسن انور کو گھورنے لگا۔
"تم لوگ بڑے پر اسرار معلوم ہو رہے ہو۔“ اس نے کہا۔
"یہ دونوں واقعی بڑے پراسرار ہیں۔ " عمران نے مسکرا کر کہا۔ "آج یہ دن بھر ائیر گن سے مکھیاں مارتے رہے ہیں!“
مارتھا اس جملے پر بےساختہ ہنس پڑی۔
"ان سے زیادہ پراسرار تم ہو!" کرنل نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
”جی ہاں!" عمران نے آہستہ سے سر ہلا کر کہا۔ ”مکھیاں مارنے کا مشورہ میں نے ہی دیا تھا۔“
"دیکھئے! میں بتاتی ہوں!" صوفیہ نے کہا "مجھے حالات کا زیادہ علم نہیں.... ڈیڈی کو ایک دن ڈاک سے ایک پارسل ملا جسے کسی نامعلوم آدمی نے بھیجا تھا۔ پارسل سے لکڑی کا ایک چھوٹا سا بندر برآمد ہوا اور اسی وقت سے ڈیڈی پریشان نظر آنے لگے! اس رات انہوں نے ٹہل کر صبح کی اور پوری طرح مصلح تھے دوسرے دن انہوں نے آٹھ پہاڑی ملازم رکھے جو رات بھر رائفلیں لئے عمارت کے گرد پہرہ دیا کرتے تھے! ڈیڈی نے ہمیں صرف اتنا ہی بتایا کہ وہ کسی قسم کا خطرہ محسوس کر رہے ہیں۔“
"اور اس بندر کا مطلب کیا تھا؟“ بار توش نے پوچھا جو اب تک خاموشی سے ان کی گفتگو سن رہا تھا۔
"ڈیڈی نے اسکے متعلق ہمیں کچھ نہیں بتایا ہم اگر زیادہ اصرار کرتے تو وہ خفا ہو جایا کرتے تھے۔"
"لیکن تم نے ہم سے یہ بات کیوں چھپانی چاہی تھی۔" ڈکسن نے پوچھا۔
"ڈیڈی کا حکم! انہوں نے کہا تھا کہ اس بات کے پھیلنے پر خطرہ اور زیادہ بڑھ جائے گا۔"
"عجیب بات ہے!" ڈکسن کچھ سوچتا ہوا بولا! "کیا میں ان حالات میں اس چھت کے نیچے چین سے رہ سکوں گا۔“
"میرا خیال ہے کہ خطرہ صرف کرنل کے لئے تھا!" عمران بولا۔
"تم احمق ہو!" ڈکسن جھنجھلا گیا۔ "میں خطرہ کی بات نہیں کر رہا ضرغام کے لئے فکر مند ہوں۔“
"کنفیوشس نے کہا ہے....."
"جب تک میں یہاں مقیم رہوں تم کنفیوشس کا نام نہ لینا سمجھے!" کر نل بگڑ گیا ۔
"اچھا!" عمران نے کسی سعادت مند بچے کی طرح سر ہلا کر کہا اور جیب سے چیونگم کا پیکٹ نکال کر اس کا کاغذ پھاڑ نے لگا!.... مار تھا پھر ہنس پڑی۔
~~~~~~~~~~~~
پولیس ہیڈ کوارٹر کے ایک کمرے میں انسپکٹر خالد میز پر بیٹھا اپنی ڈاک کھول رہا تھا!... یہ ایک تنومند اور جواں سال آدمی تھا۔ پہلے فوج میں تھا اور جنگ ختم ہونے کے بعد محکمہ سراغرسانی میں لے لیا گیا تھا!…. آدمی ذہین تھا اس لئے اسے اس محکمہ میں کوئی دشواری نہیں پیش آئی تھی!…. کارکردگی کی بناء پر وہ ہر دلعزیز بھی تھا!…. اس کے خدوخال تیکھے ضرور تھے لیکن ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے اس کے چہرہ کا دل سے کوئی تعلق ہی نہ ہو! چہرے کی بناوٹ سخت دل آدمیوں کی سی تھی مگر عادات و اطوار سے سخت گیری نہیں ظاہر ہوتی تھی!….
اپنی ڈاک دیکھنے کے بعد اس نے کرسی کی پشت سے ٹیک لگائی ہی تھی کہ میز پر رکھے ہوئے فون کا بزر بول اٹھا۔
"یس" اس نے ریسیور اٹھا کر ماؤتھ پیس میں کہا "اوہ!…. اچھا میں بھی حاضر ہوا۔"
وہ اپنے کمرے سے نکل کر محکمے کے ڈی ایس کے کمرے کی طرف روانہ ہو گیا!.... اس نے دروازے کی چق ہٹائی....
"آجاؤ" ڈی ایس نے کہا۔ پھر اس نے کرسی کی طرف اشارہ کیا!
انسپیکٹر خالد بیٹھ گیا۔
"میں نے ایک پرائیویٹ کام کے لئے تمہیں بلایا ہے۔"
"فرمائیے!"
"فیڈرل ڈیپارٹمنٹ کے کیپٹن فیاض کا ایک نجی خط میرے پاس آیا ہے۔"
"کیپٹن فیاض!" خالد کچھ سوچتا ہوا بولا "جی ہاں! شائد میں انہیں جانتا ہوں۔"
"ان کا ایک آدمی یہاں آیا ہوا ہے!.... وہ چاہتے ہیں کہ اسے جس قسم کی مدد کی ضرورت ہو، دی جائے! اس کا نام علی عمران ہے!…. اور وہ کرنل ضرغام کے ہاں مقیم ہے۔۔"
"کس سلسلہ میں آیا ہے۔“
"یہ بھی اسی آدمی سے معلوم ہو سکے گا! اور یہ رہا اس کا فوٹو۔" ڈی ایس نے میز کی دراز سے ایک تصویر نکال کر خالد کی طرف بڑھائی۔
"بہت اچھا!" خالد تصویر پر نظر جمائے بولا! "میں خیال رکھوں گا۔“
"اچھا دوسری بات!…." ڈی ایس نے اپنے پائپ میں تمباکو بھرتے ہوئے کہا! "شفٹن کے کیس میں کیا ہو رہا ہے۔"
"یہ ایک مستقل درد سر ہے۔" خالد نے طویل سانس لے کر کہا۔ "میرا خیال ہے کہ اس میں جلدی کامیابی نہیں ہوگی۔"
"کیوں؟"
"ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ شفٹن کوئی ایک فرد ہے یا جماعت!.... اور اس شفٹن کی طرف سے جتنے لوگوں کو بھی دھمکی کے خطوط ملے ہوئے ہیں!.... وہ اب تک تو زندہ ہیں اور نہ ان میں سے ابھی تک کسی نے یہ اطلاع دی کہ ان سے کوئی رقم وصول کرلی گئی ہے!۔۔ میں سوچتا ہوں مکن ہے کوئی شریر طبیعت آدمی خواہ مخواہ سنسنی پھیلانے کے لئے ایسا کر رہا ہے!…. قریب قریب شہر کے ہر بڑے آدمی کو اس قسم کے خطوط ملے ہیں!.... اور ان میں کسی بڑی رقم کا مطالبہ کیا گیا ہے۔"
"کوئی ایسا بھی ہے جس نے اس قسم کی کوئی شکایت نہ کی ہو..." ڈی ایس نے مسکرا کر پوچھا۔
"میرا خیال ہے کہ شائد ہی کوئی بچا ہو!" خالد نے کہا۔
"ذہن پر زور دو!"
"ہو سکتا ہے کہ کوئی شائد رہ ہی گیا ہو!"
"کرنل ضرغام!" ڈی ایس نے مسکرا کر کہا۔ "اس کی طرف سے ابھی تک اس قسم کی کوئی اطلاع نہیں ملی... حالا نکہ وہ بہت مالدار آدمی ہے!"
"اوه---!"
"اور اب سمجھنے کی کوشش کرو!" ڈی ایس نے کہا۔ "کرنل ضرغام اس قسم کی کوئی اطلاع نہیں دیتا اور فیڈرل ڈیپارٹمنٹ کا سپرنٹنڈنٹ ایک ایسے آدمی کے لئے ہم سے امداد کا طالب ہے جو کرنل ضرغام ہی کے یہاں مقیم ہے کیا مجھے!"
"تب تو ضرور کوئی خاص بات ہے۔"
"بہت ہی خاص!" ڈی ایس نے منہ سے پائپ نکال کر کہا۔ "میرا خیال ہے کہ تم خود ہی اس آدمی سے….کیا نام....عمران سے ملو"
"میں ضرور ملوں گا!.... مگر معلوم نہیں وہ کون اور کس قسم کا آدمی ہے۔"
"بہرحال۔۔ یہ تو ملنے ہی پر معلوم ہو سکے گا!…." ڈی اس نے کہا ۔ اور اپنی میز پر رکھے ہوئے کاغذات کی طرف متوجہ ہو گیا!
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں